MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

بانگ درا کے حوالے سے اقبال کی نظم نگاری

 

بانگ درا کے حوالے سے اقبال کی نظم نگاری

میر اقبال

علامہ محمد اقبال کے چار اردو شعری مجموعے میں پہلا مجموعہ ''بانگ درا'' ستمبر 1924 میں شائع ہوا۔ آج ایک صدی ہوچکے ہے مگر اس کی مقبولیت اور اہمیت وہی ہے جو پہلے روز تھی۔ حب الوطنی، قومی وملی درد سے لبریز جو خصوصیات اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔اس میں اقبال کی بلند آہنگ آواز ہے جس نے قوم کو جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔ بانگ درا کا لفظی معانی گھنٹے (بڑی گھنٹی) کی آواز ہے۔ مراد مسلمانوں کو روحانی اور شعوری طور پر بیدار کرنے کے لیے کی گئی شاعری ہے۔

بانگ درا کو ایک خوب صورت گل دستہ کہا جا سکتا ہے، جس میں سیکڑوں قسم کے رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو مہک رہی اور ان کی رعنائی جلوہ افروز ہے۔ اس مجموعہ میں جہاں ایک طرف حب الوطنی سے لبریز ترانے شامل ہیں جن میں ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' اور ہمالہ جیسی نظمیں بطور خاص دیکھی جا سکتی ہیں، وہیں بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے دعائیں اور دیگر نظمیں جو مکالمہ اور مناظرہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسی لازوال مسدس بھی اسی مجموعہ کلام میں شامل ہے اور نیا شوالہ جیسی نظمیں بھی شامل ہیں، کچھ نام ور حضرات کی یاد میں بھی نظمیں ہیں اور علامہ کی غزلیات کا بہت ہی خوب صورت اجتماع ہے۔

 بانگ درا کی شاعری علامہ محمد اقبال نے 20 سال کے عرصے میں رقم کی تھی۔ بانگ درا کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا دور ابتدا تا 1905ء ، دوسرا دور 1905 تا 1908 اور تیسرا دور 1908ء سے کتاب کی اشاعت تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں۔

پہلا دور:

1905ء تک اِرقام کی گئی نظمیں، جب اقبال انگلستان گئے۔ اس میں بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں اور حب الوطنی کے حوالے سے مشہور "ترانۂ ہندی" موجود ہے، جسے بھارت میں اہم حیثیت حاصل ہے اور اسے یوم آزادی پر گایا جاتا تھا۔

دوسرا دور:

1905ء سے 1908ء کے درمیان اِرقام کی گئی نظمیں، جب اقبال انگلستان میں طالب علم تھے۔ اس میں علامہ نے مغرب کی علمیت و عقلیت کو تو سراہا ہے لیکن مادہ پرستی اور روحانیت کی کمی پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس صورت حال نے اقبال کو اسلام کی آفاقی اقدار کے قریب کر دیا اور انھوں نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے شاعری کرنے کے بارے میں سوچا۔

تیسرا دور:

1908ء سے 1923ء کے درمیان کی گئی شاعری، جس میں اقبال نے مسلمانوں کو اپنے عظیم ماضی کی یاد دلائی ہے اور تمام تر سرحدوں سے بالا تر ہو کر ان سے اخوت و بھائی چارے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشہور نظمیں شکوہ، جواب شکوہ، خضر راہ اور طلوع اسلام اسی حصے میں شامل ہیں اور انھیں تاریخ کی بہترین اسلامی شاعری تسلیم کیا جاتا ہے۔محبت اور خودی اس حصے کے اہم موضوع ہیں۔

بانگ درا کے شروع میں علامہ اقبال کے دوست سر شیخ عبدالقادر کا دیباچہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دیباچہ محض کتاب یا صاحب کتاب کا سرسری تعارف نہیں بلکہ شیخ عبدالقادر کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کا آئینہ دار بھی ہے۔

اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ اقبال فطرت کے نظاروں سے آخری حد تک لطف اندوز ہونے کے قائل تھے۔ انھیں شہروں سے زیادہ بن اچھے لگتے تھے، وہ دریائوں کے کنارے حسنِ فطرت سے تسکین کا سامان دھونڈتے رہے۔ 'بانگِ درا' میں، ہمالہ، گلِ رنگیں، عہدِطفلی، ابرِکوہسار، اخترِصبح، حسن و عشق، ایک شام، رات اور شاعر، تنہائی، جگنو، صبح کا ستارہ، محبت، فراق، ایک آرزو، شبنم اور ستارے اور کنارِراوی جیسی بے شمار نظموں اور متعدد غزلوں میں ہمیں فطرت پرست، ماضی میں مست اور رومانیت میں پور پور بھیگا اقبال دکھائی دیتا ہے۔

'بانگِ درا' میں مرزا غالب، سید کی لوحِ تُربت، داغ، شبلی و حالی، عرفی، شیکسپیئر وغیرہ جیسی نظموں میں ہمارا ایک حقیقی سخن شناس اقبال سے سامنا ہوتا ہے۔

اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوام مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لئے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دل کے ساتھ دماغ کی کارفرمائی نمایاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کلام محض فلسفیانہ اور حکیمانہ ہے اور اس میں شعریت کی کوئی کمی ہے۔

اقبال کے مفکرانہ کلام میں بھی سوز اور جذبہ کا گہرا گداز شامل ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں اردو کے کلاسیکی سرمایہ سے استفادہ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو شاعری کو نئی نئی اصطلاحات، تشبیہوں اور رموز و علائم کا اک خوبصورت ذخیرہ بھی عطا کیا۔

اقبال نے زبان کو حسب ضرورت برتا، کہیں روایت کا اتباع کیا تو کہیں اس سے انحراف۔ اقبال نے اردو شاعری سے حزن و قنوطیت کے عناصر ختم کر کے اس میں رجائیت، جوش اور نشاط آفرینی پیدا کی۔

اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لیے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوب صورتی کے ساتھ ادا کرسکے۔

اقبال کو جب ہم پڑھتے ہیں تو ان کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اکثر وہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں جو اقبال اصل میں کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment