MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

اردو میں طنز و مزاح کی تعریف و روایت

 اردو میں طنز و مزاح کی تعریف و روایت 

طنز و مزاح نگاری زندگی کی ناہمواریوں اور مضحکہ خیز صورت حال کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا اسلوب ہے۔ 
خالص مزاح نگار جس چیز پر بنتا ہے، اس کے تعلق سے اس کا انداز ہمدردانہ ہوتا ہے۔
         طنز اور مزاح میں گہرا تعلق ہے۔ طنز میں مزاح کی آمیزش سے اس کی تلخی میں کمی آجاتی ہے اور اس کی نشتریت گوارا ہو جاتی ہے۔ کسی تحریر میں صرف طنز ہو تو اس کے غیر دلچسپ اور ناگوار ہونے کا ڈر رہتا ہے اور نر مزاح بے مقصد جنسی ٹھٹھول بن کر رہ جاتا ہے اس لیے عموماً ادیب یا شاعران دونوں کی آمیزش سے کام لیتے ہیں۔
        طنز و مزاح نگار سماج میں پھیلی ہوئی ہے راور دیوں ، انسانی کجر دیوں اور تضادات پر قلم سے نشتر کا کام لیتا ہے۔ وہ ادب میں اعلی انسانی اقدار کو پیش کر کے مایوس اور افسردہ انسانوں کے زخموں پر مرہم لگاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے ملٹر کی چوٹ اس قدر گہری ہوتی ہے کہ انسان تحملانے لگتا ہے۔ لیکن غیر ارادی طور پر وہ خود پر ہنستا بھی ہے۔
         طنز و مزاح کا ایک مقصد اصلاح بھی ہے۔ اردو میں طنز و مزاح کے نمونے ہمیں ابتدائی دور ہی سے ملنے لگتے ہیں۔ اردو شعرا واد با نے ابتدا ہی سے کھوکھلے سماجی رویوں ، تضادات، معاشرتی اور سیاسی برائیوں ، توہم پرستی اور فرسودہ روایات پر طنز کیا ہے۔ جعفر زٹلی نے اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات، اقتصادی بدحالی اور تہند ہی زوال پر طنز ومزاح کے پیرائے میں اشعار کہے۔
          سودا نے اپنے گردو پیش کے انتشار ، اخلاقی اور تہذ یہیں زوال، بے اعتدالی اور عدم توازن کو ہجو کا موضوع بنایا۔ نظیر اکبر آبادی کے کلام میں بھی طنز و مزاح کے عناصر ملتے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشا نے بھی طنز و مزاح سے کام لیا ہے۔ مرزا غالب کے یہاں بھی طنز و ظرافت کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ انھوں نے اپنا بھی مذاق اڑایا ہے اور جبر محکومی اور اپنے
مصائب پر بلیغ طنز کیا ہے۔
       اخبار " اودھ یخ" کی تحریروں میں طنز و مزاح کو باقاعدگی کے ساتھ برتا گیا۔ اس میں لکھنے والوں نے مغرب پرستی فیشن پسندی، سامراجیت، تہذیبی و اخلاقی زوال، سیاسی صورت حال اور معاشرتی کجروی کو نشانہ بنایا۔ ان قلم کاروں نے تصنع اور بناوٹ پر کاری ضرب لگائی اور مغرب کی تہذیبیں آندھی کو روکنے کی کوشش کی۔ اودھ پنچ کے قلم کاروں میں منشی سجاد حسین ، پنڈت تر بھون ناتھ ہجر ، احمد علی شوق، عبد الغفور شہباز اکبر الہ آبادی اور سید محمد آزاد زیادہ مشہور ہیں۔
اودھ اخبار" نے بھی نظم و نثر میں طنز و مزاح کے فروغ میں خاص کردار ادا کیا۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ناول "فسانہ آزاد اسی میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ طنز و مزاح کے اعتبار سے خوجی ان کا نمائندہ کردار ہے۔ اکبر اللہ آبادی نے طنز و مزاح کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ وہ مشرقی اقدار وروایات کا احترام کرتے تھے اور اسے مغرب کی کورانہ تقلید سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں شکر یہ اعزاحیہ نوعیت کی کئی نظمیں کہی ہیں۔ بعد کے دور میں راجا مہدی علی خان، دل اور نگار شاد عارفی امیر جعفری اور رضا نقوی داری نے طاریہ ومزاحیہ شاعری کو اعتبار بخشیدہ نظر میں کار موزی خواجہ حسن نظامی امر ز فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری رشید احمد صدیقی اور شخص جو پانی نے اردو طنز و مزان کو معیارو مواد کے اختیار سے بلند کیا۔ اس دور کے دیگر اہم قلم کاروں میں امتیاز علی لاج عظیم بیگ پاکستانی با حجم ها پوری ، وجاہت علی سندیلوی کرشن چندر کنہیا لال کپور شکر تونسوی اور شوکت تھانوی ، غیر و قابل ذکر ہیں۔ موجودہ عید کے ممتاز نظر و مراح کاروں میں این انکار کر گل محمد خال مشفق خواجہ شفیق الرحمن ، مشتاق احمد یوسفی ریوسف کا علم الیقه فرحت اللہ جمال پانا اور جتبی حسین کے نام شامل ہیں۔
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment