شمالی ہند میں اردو غزل
میر اقبال
غزل عربی زبان کا لفظ ہے ۔ غزل کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ اس صنف کو غزل کا نام اس لیے دیا گیا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے ۔اردو شاعری میں غزل کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ قصیدہ، مرثیہ ، مثنوی مگر جو قبول عام غزل کو حاصل ہوا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہ ہو سکا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری میں جو ترقی اردو غزل کو میسر ہے وہ کسی اور اصناف شاعری کو نہیں۔
غزل کی ابتدا یوں تو عربی میں ہوئی لیکن وہاں سے یہ ایران پہنچی اور فارسی میں اس نے بہت ترقی کی۔ فارسی ادب کے راستے یہ اردو میں داخل ہوئی اور خاص و عام میں مقبول ہو گئی۔ اردو غزل کے ابتدائی سفر میں جو نام ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان میں امیر خسرو، سلطان محمد قلی قطب شاہ، خاکی، نوری اور غواصی اہم ہیں۔ در اصل اردوغزل کا آغاز امیر خسرو سے ہوتا ہے۔امیر خسروفارسی اور اردو کے صوفی شاعر۔ ماہر موسیقی ،انھیں طوطی ہند کہا جاتا ہے۔
حضرت امیر خسرؔو کا شمار فارسی اور اُردو کے عظیم المرتبت ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت عالم باعمل، صوفی باکمال شاعر، مفکر، فلسفی اور ادیب کامل تھے۔ وہ اُردو زبان و ادب کے پہلے شاعر بھی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ صوفی منش اور بوریا نشین شاعر نے اپنے فکر و فن اور خُداداد صلاحیتوں سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا اور آج بھی لوگ اُن کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح ہیں۔ آپ کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی ارشاد فرماتے تھے کیف و سرمتی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری عشق حقیقی کی آئینہ دار ہے اور آپ کا کلام تصوف میں ڈوبا ہوا ہے جو بندے کو مولا سے ملانے کا کارگر وسیلہ ہے۔ غزل آپ کی محبوب صنف سخن ہے مگر انھوں نے دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور کئی اہم تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہے جو فارسی، اُردو اور ہندی کا قدیم انمول ادبی خزانہ ہے۔ ان کی غزلوں میں فارسی آموز زبان ہے۔زبان ریختہ کی پہلی غزل کا پہلا شعر دیکھیے جو امیر خسرو سے منسوب ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور پھر دوسرا مصرع ہندوی میں۔ یہ ایک انتہائی مشہور عشقیہ غزل ہے ؎
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
اس کے علاوہ ان کی غزلوں کے کئی اشعار بھی عام زبان میں میسر ہیں۔مثلا؎
گوری سوئے سیج پرمُکھ پر ڈارے کیس
چل خسرؔو گھر اپنے این بھئی چوندیس
شمالی ہند میں امیر خسرو کے بعد ایہام گوئی کا دور آتا ہے۔ایہام گو ئی کے سلسلے میں خان آرزو ، آبرو، ناجی، مضمون ،یکرنگ، فائز اور حاتم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔خان آرزو بنیادی طور پر فارسی کے شاعر تھے۔ خان آرز و صنعت ایہام کے استاد مانے جاتے تھے۔۔خان آرزو نے اردو میں تقریباً 27 اشعار کہے ہیں۔میر نے آرزو کو استاد و پیرو مر شد بندہ کہا ہے۔میر نے لکھا ہے کہ اس فن بے اعتبار کو جسے ہم نے اختیار کر لیا ہے (آرزو نے) معتبربنایا۔۔۔تمام نشته استادان فن ریختہ بھی انہی بزرگوار کے شاگرد ہیں۔
ایہام گو شعراءکے بعد جو نیا دور شروع ہوااس میں مظہر، یقین، سودا ،میر تقی میر، خواجہ میر درد،وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے ایہام کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ چنانچہ اس دور میں ان لوگوں نے ایہام گوئی کی بندشوں کو شدت سے محسوس کیا ان کے سبب خیالات کے اظہار میں رکاوٹ آجاتی تھی۔ یوں ایہام گوئی میں زیادہ شعر کہنا مشکل تھا۔ لیکن ایہام گوئی ترک کرنے کے بعد شعراءکے دیوان خاصے ضخیم ہونے لگے۔ شعراءکی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ اس نئے دور میں ایہام گوئی کے خلاف اس قدر احتجاج کیا گیا کہ شاہ حاتم جو ایہام گو شاعر تھے انھوں نے اس روش کو ترک کر دیا اور اپنے دیوان سے ایہام کے شعر نکال دیے۔
اس کے بعد میر سودا اور درد کا دور آتا ہے۔اس دور کو اردو شاعری کا عہد زریں بھی کہا گیا ہے۔اردو قصیدہ نگاری میں جو منفرد اور بلند مقام سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔سوداکی طبیت اور مزاج سے یہ صنف گہری مناسبت رکھتی تھی،تمام نقادوں نے ان کی قصیدہ نگاری کو سراہا ہے۔انہوں نے غزل بھی کہی اور اس میں ان کا مقام سطحی اور معمولی نہیں ہے،وہ چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے سو زندگی عیش و طرب میں گزرتی تھی امیروں کی صحبتیں میسر تھیں اس لیے کسی کے عشق جانگداز میں میر کی طرح آنسو نہیں بہائے،ان کے کلام میں سوزوگداز،درد،غم کی گہری ٹیسیں اور خستگی تو نہیں جو میر کی غزلوں کا خاصا ہے اس کے باوجود سودا کی غزل جاندار ہے؎
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
سودا کے برعکس میر کی طبیعت میں لٹک اور تصوف کی جھلک تھی۔شاعری کی ایک صنف واسوخت کو خاص طور پر میر نے ایجاد کیا۔میر غزل کے بادشاہ تسلیم کیے گئے ہیں۔میر نے اپنی شاعری میں حقیقت کے رنگ بھر کے اردو زبان کو چار چاند لگا دیے۔میر نے اپنے دل کی آواز کو اس قدر موہوم اور سہل بنا کر شعر میں پرویا کہ وہ عوام کی زبان بن گئی؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔ یقیناً دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے لیکن انہیں محض اک صوفی شاعر کہنا ان کی شاعری کے ساتھ نا انصافی ہے۔دردؔ کے کلام میں عشق و عقل، جبر و اختیار، خلوت اور انجمن، سفر در سفر، بے ثباتی وبے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لامکاں، وحدت و کثرت، جزو و کل توکل اور فقر کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ فی زمانہ، تصوف کا وہ برانڈ، جس کے دردؔ تاجر تھے، اب فیشن سے باہر ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ سنجیدہ طبقہ میں سرمد اور رومی کا برانڈ اور عوام میں بلھے شاہ، سلطان باہو اور "دما دم مست قلندر" والا برانڈ زیادہ مقبول ہے؎
کہا جب میں ترا بوسہ تو جیسے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے پر قند مکرر ہو نہیں سکتا
اس کے بعد بہادر شاہ ظفر،غالب،مومن ،ذوق وغیرہ کا دور آتا ہے۔غالبؔ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو فکر و ذہن عطا کیا۔ جیساکہ آل احمد سرور ان کی غزلوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی، غالب نے اسے ذہن دیا۔‘‘یہ حقیقت بھی ہے کہ غالب سے پہلے اردو غزل کی دنیا بہت محدود تھی۔ اردو غزل کے موضوعات حسن و عشق ہی ہوا کرتے تھے۔ لیکن غالبؔ نے اردو غزل کو نیا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اردو غزل میں نئے نئے موضوعات کو شامل کیا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے زندگی کے حقیقی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھاہے
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
محمد مومن خان مومنؔ انیسویں صدی کےایک اہم اور بڑے شاعر تھے۔ بعض لوگوں نے مومن کی غزل گوئی کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئےانہیں عہد زریں کا دوسرا بڑا شاعر مانا ہے۔ ان کا تعلق دبستان دہلی سے تھا۔ شعری کائنات میں مومنؔ کا اصل میدان غزل گوئی ہے۔ حالانکہ انہوں نے قصیدہ، مثنوی، رباعی، قطعہ وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کے فن کا اصل جوہر ان کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ اور مومنؔ اپنی غزلوں کی وجہ سے ہی معروف و مقبول ہوئے۔مومنؔ کی غزل گوئی کا دائرہ حسن و عشق ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کی بنیاد حسن و عشق پر رکھی اور اسے ہی اپنی شاعری کا موضوع بناکر رکھا۔ لیکن ان کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود ان کے یہاں جدت نظر آتی ہے۔ انہوں نے عشق کے معاملات کو طرح طرح سے موضوع بنایا ہے اور ہر جگہ نئے پن کا خاص خیال رکھا ہے۔انہوں نے عشق کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور اس میں پیش آنے والی تمام باتوں کو بہت ہی خوبی اور کمال کے ساتھ بیان کیا ہےجس سے ان کی شاعری بہت ہی دلکش نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر؎
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ذوق کو محاورہ بندی سے خاص رغبت ہے وہ اکثر پورے پورے محاورے کو نظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اشعار زبان کی قدرت کا ثبوت تو دے سکتے ہیں لیکن ان کی شاعرانہ قدر و قیمت میں کچھ اضافہ نہیں کر پاتے۔ مثلاً ؎
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
اس کے بعد شمالی ہند میں ایک مشہور و مقبول شاعر و ادیب کا نام اتا ہے جس کا نام علامہ اقبال ہے۔ علامہ اقبال نے غزل اور نظم دونوں شعری اصناف میں ترقی فراہم کی ہے۔ ان کی غزلوں میں شاہین کا فلسفہ مرد مومن کا فلسفہ خودی کا فلسفہ عشق حقیقی اور عشق مجازی اور زندگی کا فلسفہ وغیرہ شامل ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں فارسی عربی اردو انگریزی وغیرہ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ اقبال کی غزل گوئی کی خصوصیت ان چند اشعار میں دیکھ سکتے ہیں کہ
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اس کے بعد شمالی ہند میں ترقی پسند کا دور اتا ہے اس کے بعد جدیدیت کا دور۔ یہ دونوں ادوار اردو شاعری میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ ترقی پسند غزل گو شعرا میں جوش، فیض، وغیرہ شامل ہے۔ جدیدیت پسند یا 1960 کے بعد شمالی ہند کے مشہور و مقبول شعرا کے نام شہریار ناصر کاظمی ندا فاضلی وغیرہ ہے۔ ان مشہور شعرا کہ چند اشعار پیش نظر ہیں؎
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے فیض احمد فیض
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے شہریار
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا ناصر کاظمی
0 comments:
Post a Comment