MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

اردو نظم نگاری کی روایت

     

      اردو نظم کا آغاز و ارتقاء

میر اقبال

      اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب نظرآتے ہیں۔

          شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل افضل  اور جعفر زٹلی کے یہاں اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس عہد کی ایک اہم تصنیف محمد افضل افضل کی ’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس دورکے بعد  اردو شاعری کا وہ دور آتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم نگارکی نہیں ہے لیکن ان کے یہاں بھی نظم گوئی کی جھلکیں ہیں۔

        اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت قائم کرتی ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے ہم زندگی کے گوناگوں مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سماجی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے  آتے ہیں۔ رسم و رواج، کھیل کود،  تہوا ر، بچپن، جوانی، گرمی، برسات، جاڑا، چرند و پرند، غرض کہ ہم جس فضاا ور ماحول میں سانس لیتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ نظیر کی  مشہور نظمیں  ہولی، دیوالی، عید، بسنت، برسات، جاڑا، بچپن، جوانی،آدمی نامہ،بنجارہ نامہ،روٹیاں،مفلسی، بڑھاپا، تل کے للو، بلدیوجی کا میلہ وغیرہ  ہیں۔

            نظیر کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی ہی رہی۔21 جنوری 1865 کو انجمن اشاعتِ مطالبِ یعنی   ’انجمن پنجاب‘ عمل  میں آیا۔ محمد حسین آزاد اور حالی اس انجمن  سے وابستہ تھے۔ مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں موضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے  موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔ گرچہ شاعروں کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا لیکن نظم نگاری کی انھیں کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔ 

             حالی نے ان مشاعروں میں کئی اہم نظمیں سنائیں۔ برکھارت، نشاطِ امی، مناظرہ رحم و انصاف، حب وطن، جیسی نظمیں انھیں مشاعروں میں سنائی گئیں۔انجمن پنجاب کے   تیسرے مشاعرے کا موضوع ’امید‘ تھا۔ حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہیں۔  مسدس مدو و جزر اسلام، مناجاتِ بیوہ، مرثیۂ غالب، چپ کی داد وغیرہ حالی کی اہم نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔

        حالی کے بعد کے ادوار میں اسماعیل میرٹھی ، اکبر الہ آبادی اور شاد عظیم آبادی نے بھی نظم کی فروغ میں اہم کارنامے انجام دیے  اور اردو نظم کو ایک پہچان بخشی ۔    اس کے بعد اردو نظم کی ارتقاء میں چکبست اور اقبال کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔اقبال  کی نظموں میں ربط و تسلسل ہے ، مدلل اور مربوط فلسفہ ہے۔

اقبال  کی نظموں میں مرد مومن،تصوف،شاہین،خودی،بےخودی وغیرہ کا فلسفہ نظر آتا ہے۔اقبال کی نظموں کے کل چار مجموعے ہیں جن کا نام بانگ درا – 1924 ، بال جبریل – 1934  ،ضرب کلیم – 1936 اور ارمغان حجاز – 1938 ہیں۔اقبال کی مشہور نظموں کے نام ہمالہ ،ساقی نامہ،شکوہ،جواب شکوہ،خضر راہ ،مسجد قرطبہ،لالہ سحرا،وغیرہ ہیں۔

              اسکے بعد کے ادوار میں جوش، فراق اختر شیرانی اور ساغر نظامی کا نام اردو نظم نگاروں میں سر فہرست نظر آتا ہے ۔                 ترقی پسند تحریک میں اچھے اور باصلاحیت نوجوان شعراء   شامل ہو گئے ۔ اور کچھ پرانے ادیب بھی اس کی حمایت کرنے لگے ۔ان  شعراء میں فیض خالص ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے منظر عام پر آۓ۔ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی  ہے۔ ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ 

          فیض کے علاوہ اسرار الحق مجاز بھی اول اول اس تحریک کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سےآۓ بعد اگرچہ کہ اس سے منحرف ہو کر اپنی ایک الگ راہ نکال لی ، انہوں نے بہت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ان کے علاوہ جہاں شاراختر ، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، احمد ندیم قاسمی اردو کے ترقی پسند نظم گوئی کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔

      ترقی پسند تحریک اردو نظم کو ”حلقہ اربابِ ذوق“ نے سراہا۔اس تحریک کے دو اہم نظم نگاروں کے نام ن م راشد اور دوسرا میرا جی ہیں۔ان دونوں کو حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اور بقول ڈاکٹر وزیرآغا ”راشد کے انسان کے قدم زمین میں دھنسے ہوئے ہیں بلکہ زمین سے اُٹھے ہوئے ہیں۔“  حلقہ اربابِ ذوق کی شعراءمیں میراجی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میراجی شخصی حوالوں سے اردو نظم کا بدنام ترین شاعر ہے۔ اس کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے۔میراجی کی  اہم نظموں کے نام  سمندر کا بلاوا،کلرک کا نغمۂ محبت ، یعنی ،شراب ، مجھے گھر یاد آتا ہے ،جاتری ،بغاوت نفس  ہیں۔

                    آزادی کے بعد اردو نظم میں بہت سارے رجحانات در آۓ ۔ یہ دور شدید ذہنی خلفشار بر ہمی اور ملال کا دور ہے۔ صرف اردو ہی نہیں اس دور کی تمام زبانوں کی نظموں میں ان کیفیتوں کا اظہار ہو رہا ہے ۔ عمیق حنفی وحید اختر ابن انشاء وزیر آغا وغیرہ کی نظموں میں اس دور کی عکاس ملتی ہے ۔ سلیم احمد کی نظم "مشرق" کافی مقبول ہوئی ہے۔ 

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

1 comments: